راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
ہم کئی بار انہیں گھبرا کے پکارے ہوتے
شعلۂ حسن کو روکا ہے نقاب رخ نے
ابھی موتی ترے کانوں کے شرارے ہوتے
جانتے تھے کہ اتارو گے لحد میں ہم کو
میلے کپڑے ابھی تم نے نہ اتارے ہوتے
میرے مرنے کے رہے منتظر احسان کیا
کیوں سہی آپ نے تکلیف سدھارے ہوتے
سامنے میرے رقیبوں کو دکھائے ابرو
آپ نے اس سے تو خنجر مجھے مارے ہوتے
ساتھ آہوں کے شب غم میں جو دل اڑ جاتا
آبلے اوج یہ پاتے کہ ستارے ہوتے
دور سے بھی نہ ہوا یار کا دیدار نصیب
خیر باتیں نہ ہوئی تھیں تو اشارے ہوتے
عشق بازی نہ رہی دل جو گیا واہ رشیدؔ
دم نکل جاتا پہ ہمت تو نہ ہارے ہوتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |