رامائن کا ایک سین

رامائن کا ایک سین
by برج نرائن چکبست
298757رامائن کا ایک سینبرج نرائن چکبست

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدت ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نور نظر یہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
چہرہ کا رنگ حالت دل کھولنے لگا
ہر موئے تن زباں کی طرح بولنے لگا
آخر اسیر یاس کا قفل دہن کھلا
افسانۂ شدائد رنج و محن کھلا
اک دفتر مظالم چرخ کہن کھلا
وا تھا دہان زخم کہ باب سخن کھلا
درد دل غریب جو صرف بیاں ہوا
خون جگر کا رنگ سخن سے عیاں ہوا
رو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں
سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز کہوں گی ہاں
کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں
دنیا کا ہو گیا ہے یہ کیسا لہو سپید
اندھا کیے ہوئے ہے زر و مال کی امید
انجام کیا ہو کوئی نہیں جانتا یہ بھید
سوچے بشر تو جسم ہو لرزاں مثال بید
لکھی ہے کیا حیات ابد ان کے واسطے
پھیلا رہے ہیں جال یہ کس دن کے واسطے
لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ بہم
ڈستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت و حشم
تم میرے لال تھے مجھے کس سلطنت سے کم
میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت و تاج کو
تم ہی نہیں تو آگ لگا دوں گی راج کو
کن کن ریاضتوں سے گزارے ہیں ماہ و سال
دیکھی تمہاری شکل جب اے میرے نونہال
پورا ہوا جو بیاہ کا ارمان تھا کمال
آفت یہ آئی مجھ پہ ہوئے جب سفید بال
چھٹتی ہوں ان سے جوگ لیا جن کے واسطے
کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے
ایسے بھی نامراد بہت آئیں گے نظر
گھر جن کے بے چراغ رہے آہ عمر بھر
رہتا مرا بھی نخل تمنا جو بے ثمر
یہ جائے صبر تھی کہ دعا میں نہیں اثر
لیکن یہاں تو بن کے مقدر بگڑ گیا
پھل پھول لا کے باغ تمنا اجڑ گیا
سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ
منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ
آتی نظر نہیں کوئی امن و اماں کی راہ
اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ
تقصیر میری خالق عالم بحل کرے
آسان مجھ غریب کی مشکل اجل کرے
سن کر زباں سے ماں کی یہ فریاد درد خیز
اس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بیکس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے
پھر عرض کی یہ مادر ناشاد کے حضور
مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے کیوں وفور
صدمہ یہ شاق عالم پیری میں ہے ضرور
لیکن نہ دل سے کیجیے صبر و قرار دور
شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی
یہ جعل یہ فریب یہ سازش یہ شور و شر
ہونا جو ہے سب اس کے بہانے ہیں سر بسر
اسباب ظاہری میں نہ ان پر کرو نظر
کیا جانے کیا ہے پردۂ قدرت میں جلوہ گر
خاص اس کی مصلحت کوئی پہچانتا نہیں
منظور کیا اسے ہے کوئی جانتا نہیں
راحت ہو یا کہ رنج خوشی ہو کہ انتشار
واجب ہر ایک رنگ میں ہے شکر کرد گار
تم ہی نہیں ہو کشتہ نیرنگ روزگار
ماتم کدہ میں دہر کے لاکھوں ہیں سوگوار
سختی سہی نہیں کہ اٹھائی کڑی نہیں
دنیا میں کیا کسی پہ مصیبت پڑی نہیں

دیکھے ہیں اس سے بڑھ کے زمانے نے انقلاب
جن سے کہ بے گناہوں کی عمریں ہوئیں خراب
سوز دروں سے قلب و جگر ہو گئے کباب
پیری مٹی کسی کی کسی کا مٹا شباب
کچھ بن نہیں پڑا جو نصیبے بگڑ گئے
وہ بجلیاں گریں کہ بھرے گھر اجڑ گئے
ماں باپ منہ ہی دیکھتے تھے جن کا ہر گھڑی
قائم تھیں جن کے دم سے امیدیں بڑی بڑی
دامن پہ جن کے گرد بھی اڑ کر نہیں پڑی
ماری نہ جن کو خواب میں بھی پھول کی چھڑی
محروم جب وہ گل ہوئے رنگ حیات سے
ان کو جلا کے خاک کیا اپنے ہات سے
کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال
ان بے کسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان گزرتے ہی ماہ و سال
خود دل سے درد ہجر کا مٹتا گیا خیال
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ و ماتم ہوا کیا
آخر کو رو کے بیٹھ رہے اور کیا کیا
پڑتا ہے جس غریب پہ رنج و محن کا بار
کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کردگار
مایوس ہو کے ہوتے ہیں انساں گناہ گار
یہ جانتے نہیں وہ ہے دانائے روزگار
انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے
گردن وہی ہے امر رضا میں جو خم رہے
اور آپ کو تو کچھ بھی نہیں رنج کا مقام
بعد سفر وطن میں ہم آئیں گے شاد کام
ہوتے ہیں بات کرنے میں چودہ برس تمام
قائم امید ہی سے ہے دنیا ہے جس کا نام

اور یوں کہیں بھی رنج و بلا سے مفر نہیں
کیا ہوگا دو گھڑی میں کسی کو خبر نہیں
اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پہ باغباں
ہے دن کی دھوپ رات کی شبنم انہیں گراں
لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائیگاں
رکھتے ہیں جو عزیز انہیں اپنی جاں کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح
لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار
موقوف کچھ ریاض پہ ان کی نہیں بہار
دیکھو یہ قدرت چمن آرائے روزگار
وہ ابر و باد و برف میں رہتے ہیں برقرار
ہوتا ہے ان پہ فضل جو رب کریم کا
موج سموم بنتی ہے جھونکا نسیم کا
اپنی نگاہ ہے کرم کارساز پر
صحرا چمن بنے گا وہ ہے مہرباں اگر
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامان دشت دامن مادر سے کم نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.