رخ پر رہی وہ زلف معنبر تمام رات
رخ پر رہی وہ زلف معنبر تمام رات
روشن نہ وصل میں ہوا یہ گھر تمام رات
دیکھا تو غور سے ترے بیمار کو نہیں
اس پر پڑی رہی ہے یہ چادر تمام رات
دل کو بھی بھول بھول گیا بے خودی میں کچھ
ڈھونڈا کیا میں کل جو ترا گھر تمام رات
ہووے گا قتل صبح کو کوئی جو سخت جاں
کرتے رہے ہیں تیز وہ خنجر تمام رات
عارفؔ نہیں ہے ہم کو صبوحی کی احتیاط
لیتے ہیں نام ساقیٔ کوثر تمام رات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |