رخ پر ہے ملال آج کیسا
رخ پر ہے ملال آج کیسا
دل بر ہے ملال آج کیسا
اس خال سے کیا ملی ہے ذلت
اختر ہے ملال آج کیسا
بے یار نہیں ہوا ترا دور
ساغر ہے ملال آج کیسا
کیا آئی ہے یاد تیغ قاتل
اے سر ہے ملال آج کیسا
ہے راحت وصل کے جو آمد
مضطر ہے ملال آج کیسا
اندر میری آہ سن کے بولے
باہر ہے ملال آج کیسا
کیا آئی ہے کچھ خبر سخیؔ کی
گھر گھر ہے ملال آج کیسا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |