رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا
ہم دل زدہ نہ رکھتے تھے تم سے یہ چشم داشت
کرتے ہو قہر لطف کی جاگا غضب ہے کیا
عزت بھی بعد ذلت بسیار چھیڑ ہے
مجلس میں جب خفیف کیا پھر ادب ہے کیا
آئے ہم آپ میں تو نہ پہچانے پھر گئے
اس راہ صعب عشق میں یارو تعب ہے کیا
حیراں ہیں اس دہن کے عزیزان خوردہ بیں
یہ بھی مقام ہائے تامل طلب ہے کیا
آنکھیں جو ہوویں تیری تو تو عین کر رکھے
عالم تمام گر وہ نہیں تو یہ سب ہے کیا
اس آفتاب بن نہیں کچھ سوجھتا ہمیں
گر یہ ہی اپنے دن ہیں تو تاریک شب ہے کیا
تم نے ہمیشہ جور و ستم بے سبب کیے
اپنا ہی ظرف تھا جو نہ پوچھا سبب ہے کیا
کیوں کر تمہاری بات کرے کوئی اعتبار
ظاہر میں کیا کہو ہو سخن زیر لب ہے کیا
اس مہ بغیر میرؔ کا مرنا عجب ہوا
ہر چند مرگ عاشق مسکیں عجب ہے کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |