رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں
جس سر زمیں کے ہم ہیں وہاں آسماں نہیں
دو روز ایک وضع پہ رنگ جہاں نہیں
وہ کون سا چمن ہے کہ جس کو خزاں نہیں
عبرت کی جا ہے لاکھوں ہی طفل و جواں نہیں
پیری میں بھی خیال اجل کا یہاں نہیں
دشمن اگر وہ دوست ہوا ہے تو کیا عجب
یاں اعتماد دوستیٔ جسم و جاں نہیں
رفتار ناز میں یہ لچک جاتی ہے کہ بس
گویا تری کمر میں صنم استخواں نہیں
منعم کے شکر میں بھی ہلائیں کبھی کبھی
تنہا برائے لذت دنیا زباں نہیں
پژمردہ ایک ہے تو شگفتہ ہے دوسرا
باغ جہاں میں فصل بہار و خزاں نہیں
جن کے سروں پر آپ مگس راں رہے ہما
ان کا لحد میں آج کوئی استخواں نہیں
دھوکا نہ کھا ظروف وضو کو تو دیکھ کر
مسجد ہے مے فروش کی ناسخؔ دکاں نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |