رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے
رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے
یہ کیا کر رہے ہو یہ کیا ہو رہا ہے
دعا کو نہیں راہ ملتی فلک کی
کچھ ایسا ہجوم بلا ہو رہا ہے
وہ جو کر رہے ہیں بجا کر رہے ہیں
یہ جو ہو رہا ہے بجا ہو رہا ہے
وہ نا آشنا بے وفا میری ضد سے
زمانے کا اب آشنا ہو رہا ہے
چھپائے ہوئے دل کو پھرتے ہیں بیخودؔ
کہ خواہاں کوئی دل ربا ہوا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |