رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے
رقیب جوڑ چلا تم ملال کر بیٹھے
کدھر خیال گیا کیا خیال کر بیٹھے
خیال اسی پہ رہے دیکھ بھال کر بیٹھے
تمہاری بزم میں دل کو سنبھال کر بیٹھے
مرے گناہ پر ان زاہدوں کو حیرت ہے
یہ آدمی کو فرشتہ خیال کر بیٹھے
بچاؤں کیونکر اسے کس طرح انہیں ٹالوں
غضب ہوا کہ وہ دل کا سوال کر بیٹھے
رقیب خوش ہوئے اب تو تمہیں قرار آیا
کہ مثل رنگ مرا خون اچھال کر بیٹھے
فلک کی چال ہے یہ آدمی کی چال نہیں
چلے تو لاکھوں ہی کو پائمال کر بیٹھے
خموش کیوں ہو یہ نطق آدمی کا زیور ہے
جو کوئی بیٹھے کہیں بول چال کر بیٹھے
خبر نہیں کہ ہے کاجل کی کوٹھری دنیا
یہاں جو بیٹھے وہ دامن سنبھال کر بیٹھے
جہاں ہے نقش بر آب اس میں دم کے دم ہے قیام
کوئی کسی سے یہاں کیا ملال کر بیٹھے
تڑپ رہا تھا زمیں پر تڑپنے دیتے تم
کسی کا دل ہو کوئی پائمال کر بیٹھے
ٹٹولتے ہیں جگر کو کہ دل کو ڈھونڈتے ہیں
وہ میرے سینے میں کیوں ہاتھ ڈال کر بیٹھے
وہ میرا دل نہیں اے جاں رقیب کا دل ہے
تمہارا تیر جگہ دیکھ بھال کر بیٹھے
کیا خیال ذرا بھی نہ خون عاشق کا
حنا سے تم کف گل رنگ لال کر بیٹھے
ہجوم چاک گریبانوں کا ہے کوچے میں
حضور پردے سے کیوں سر نکال کر بیٹھے
یہ کیا کیا کہ انہیں دے دیا دل اے اکبرؔ
تمہیں خبر نہیں وہ تم سے چال کر بیٹھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |