رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
وہی سمجھا نہ ورنہ ہم نے تو
زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے
اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں
یاں کبھو سرو و گل کے سائے تھے
کچھ نہ سمجھے کہ تجھ سے یاروں نے
کس توقع پہ دل لگائے تھے
فرصت زندگی سے مت پوچھو
سانس بھی ہم نہ لینے پائے تھے
میرؔ صاحب رلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |