رنگ بدلا ہے کئی دن سے مزاج یار کا
رنگ بدلا ہے کئی دن سے مزاج یار کا
جوڑ شاید چل گیا پھر آج کل اغیار کا
کس قدر پایا سویدائے دل عاشق نے اوج
رفتہ رفتہ تل بنا آخر ترے رخسار کا
اب تو آ کر دیکھ جانا چاہئے تجھ کو ضرور
حال ہے نوع دگر عیسیٰ ترے بیمار کا
بے خودی میں زخم دل پر جبکہ پڑتی ہے نظر
ہوتا ہے دھوکا تمہارے روزن دیوار کا
حال درد دل بیاں کس سے کروں میں بد نصیب
تو ہی جب پرساں نہ ہو لے میرے حال زار کا
بات کرنا ہو گیا مشکل بتوں کے سامنے
پڑ گیا پھندا گلے میں رشتۂ زنار کا
ہو گیا ہوں ناتواں ایسا تمہارے ہجر میں
توڑنا مشکل ہوا ہے آنسوؤں کے تار کا
اک فقط تیرے کشیدہ ہونے سے یہ حال ہے
بھاگتا ہے سایہ تک مجھ سے تری دیوار کا
ناتواں ایسا ہوں پس کر خاک ہو جاؤں ابھی
سایہ پڑ جائے اگر مجھ پر تری دیوار کا
اب تو صورت اپنی دکھلاؤ خدا کے واسطے
دم نکلتا ہے تمہارے طالب دیدار کا
اپنی کم فہمی سے انجمؔ ہم نہایت تنگ ہیں
ذہن میں آتا نہیں مضموں دہان یار کا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |