Author:مرزا آسمان جاہ انجم
مرزا آسمان جاہ انجم (?–?) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
editدیوان انجم (1905)
edit- باعث ترک ملاقات بتاؤ تو سہی
- جوش پر اپنی مستیاں آئیں
- آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
- نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے
- ہمیں زاہد جو کافر جانتا ہے
- بطرز دلبری بیداد کیجے
- سوال کیا کروں تجھ سے گناہ گار ہوں میں
- یوں تو ان آنکھوں سے ہم نے او بت کہنے کو دنیا دیکھی
- انجمؔ تمہیں الفت ابھی کرنا نہیں آتا
- دم رخصت جو ان سے کہہ کے میں اٹھا خدا حافظ
- گر انہیں ہے اپنی صورت پر گھمنڈ
- لگی ہے مسی پان کھائے ہوئے ہیں
- اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
- عرش و کرسی کی خبر لائے ہیں لانے والے
- پھول جتنے ہیں تمہارے ہار میں
- یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجمؔ جیتا ہے یا مرتا ہے
- ہم سے نہ ہوگی ترک وفا یہ اور کسی کو سنائیں آپ
- انجمؔ اگر نہیں در دل دار تک پہنچ
- صاف ہم تم سے آج کتنے ہیں
- دکھاتا ہے مرا دل بے الف رے
- غم ہجر کے گئے دن گزر ہوا آخر اپنا وصال ہی
- رنگ بدلا ہے کئی دن سے مزاج یار کا
- صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے
- نہ تھا دل ہمارا کبھی غم سے واقف
- چل بسے جو کہ تھے جانے والے
- خدا خدا کر کے آئے بھی وہ تو منہ لپیٹے پڑے ہوئے ہیں
- دل لے کے برائی کرتے ہیں لو اور سنو لو اور سنو
- امید مہر پر اک حسرت دل ہم بھی رکھتے تھے
- شبیہ خنجر قاتل بنا کر
- وہ چال اٹکھیلیوں سے چل کر دل و جگر روندے ڈالتے ہیں
- کبھی انجمؔ اسے ہشیار تو کر
- الٰہی کوئی ہوا کا جھونکا دکھا دے چہرہ اڑا کے آنچل
- نگہ کیا اور مژہ کیا اے صنم اس کو بھی اس کو بھی
- کیوں خود بخود پھری نگہ یار کیا سبب
- بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے
- دل لے کے ہمارا پھرتا ہے یہ کون وطیرہ تیرا ہے
- پئے گناہ ہے تیری پناہ کی تخصیص
- لطف ہو گر تو ہو اور مے خانہ ہو
- یاں کفر سے غرض ہے نہ اسلام سے غرض
- کبھی لکھتا ہوں میں ان کو اگر خط
- گر جفا کی نہ ہو وفا مانع
- مری جاں جدائی نہ ہوگی تو ہوگی
- میرے جانب سے اسے جا جا کے سمجھاتے ہیں لوگ
- سارے عالم میں نور ہے تیرا
- ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ تم اپنے اے لالہ فام آدھا
- چلے آؤ اگر دم بھر کو تم تو یہ جاتا رہے فی الفور مرض
- مثال چرخ رہا آسماںؔ سر گرداں