رنگ شراب سے مری نیت بدل گئی
رنگ شراب سے مری نیت بدل گئی
واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی
طیار تھے نماز پہ ہم سن کے ذکر حور
جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
چمکا ترا جمال جو محفل میں وقت شام
پروانہ بیقرار ہوا شمع جل گئی
عقبیٰ کی باز پرس کا جاتا رہا خیال
دنیا کی لذتوں میں طبیعت بہل گئی
حسرت بہت ترقیٔ دختر کی تھی انہیں
پردہ جو اٹھ گیا تو وہ آخر نکل گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |