رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں

رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں
by حاتم علی مہر

رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں
ساتھ کے یار چلتے جاتے ہیں

جن کی کرتے ہو تم مسیحائی
وہ مریض اب سنبھلتے جاتے ہیں

دل میں ہونے لگا حضور کا گھر
آپ سانچے میں ڈھلتے جاتے ہیں

زلف الجھتے ہے ان کے بالوں سے
سانپ کا سر کچلتے جاتے ہیں

شائق قتل کوئے قاتل میں
کودتے اور اچھلتے جاتے ہیں

دیکھتے ہیں وہ اپنا جوبن آپ
اب تو کچھ کچھ سنبھلتے جاتے ہیں

ہم تو روتے ادھر سے آتے ہیں
آپ ادھر سے مچلتے جاتے ہیں

مہرؔ سوئے تھے کس کے ساتھ کہ صبح
ٹھنڈے ٹھنڈے بھی جلتے جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse