رنگ ہے اے ساقیٔ سرشار قیصر باغ میں
رنگ ہے اے ساقیٔ سرشار قیصر باغ میں
پھول پیتے ہیں ترے مے خوار قیصر باغ میں
دیکھ کر رنگیں ترا رخسار قیصر باغ میں
گل سے بلبل ہو گئے بیزار قیصر باغ میں
ساتھ ہے اک غیرت گل زار قیصر باغ میں
بلبلوں کو دے رہے ہیں خار قیصر باغ میں
باتیں بلبل کو سنا شیداۓ رخ گل کو بنا
کبک کو چل کر دکھا رفتار قیصر باغ میں
صورت ادریس جنت سے نکلتے ہیں کہیں
اب تو لایا طالع بیدار قیصر باغ میں
شاہد گل موتیوں میں لد رہے ہیں آج کل
ابر تر رہتا ہے گوہر بار قیصر باغ میں
بلبلیں گل سے خفا ہوں قمریاں شمشاد سے
سیر ہو چلیے جو آپ اے یار قیصر باغ میں
کس طرح حوروں کو لا کر خلد سے دکھلائیے
کیا بہار آئی ہے اب کے بار قیصر باغ میں
دیکھ پائیں میرے سینے کے اگر گل ہائے داغ
بلبلیں ہوں گی گلے کا ہار قیصر باغ میں
موسم گل میں یہیں جوش جنوں کی ہے بہار
رنگ لا کر آئیں گے سو بار قیصر باغ میں
اے صنم اللہ رے جلوہ ترا حیرت فزا
بت بنے ہیں صاحب زنار قیصر باغ میں
وہ مرض کھوے طبیبوں کی بھی آنکھیں کھل گئیں
ہے مسیحا نرگس بیمار قیصر باغ میں
خلد میں آ کر شراب خلد سے بھی اجتناب
جام مے سے زاہدا انکار قیصر باغ میں
قامت بالا کا رتبہ ہے دوبالا سرو سے
طرہ ہے سنبل پہ زلف یار قیصر باغ میں
دور میں سلطان عالم کی ہیں یہ کیفیتیں
غیرت جم ہے ہر اک مے خوار قیصر باغ میں
دیکھ کر روئے مصفا یار کا حیرت ہوئی
آئنے ہیں پشت بر دیوار قیصر باغ میں
ہے پئے ابر بہاری یہ محل آبرو
آئے زیر سایۂ دیوار قیصر باغ میں
دیکھ کر تیرے رخ رنگیں کو اے رشک بہار
گل ہوئے ہیں باغباں پر بار قیصر باغ میں
جائیے وقت مسیحائی ہے اے روح رواں
منتظر ہے نرگس بیمار قیصر باغ میں
تجھ سے اور گل سے ہوئی بحث جمال اے غنچہ لب
مجھ سے بلبل سے ہوئی تکرار قیصر باغ میں
نکہت گل سے صباؔ ہم مست رہتے ہیں مدام
بادۂ گلگوں نہیں درکار قیصر باغ میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |