رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی

رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
by مضطر خیرآبادی

رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
تجھے کس گوہر نایاب کی ہے جستجو پانی

وہی میرے لیے ساقی مئے گلفام بن جائے
جو اپنے دست نازک سے پلا دے مجھ کو تو پانی

اگر دریا میں تم دست حنائی اپنے دھو لیتے
تو اب تک ہو گیا ہوتا کبھی کا سرخ رو پانی

کیا کرتے تھے بڑھ بڑھ کر بہت باتیں صفائی کی
مرے اشکوں نے کر دی موتیوں کی آبرو پانی

بہت آسان ہے مضطر ذلیل و خوار ہو جانا
جو مشکل ہے تو چشم خلق میں کچھ آبرو پانی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse