روتے ہیں سن کے کہانی میری
روتے ہیں سن کے کہانی میری
کاش سنتے وہ زبانی میری
کٹ گیا غیر مرے نالوں سے
واہ ری سیف زبانی میری
آئنہ دیکھ کے فرماتے ہیں
کس غضب کی ہے جوانی میری
پھر تمہیں نیند نہیں آنے کی
کہیں سن لی جو کہانی میری
بار کیا پاؤں تری محفل میں
ہے سبک تجھ پہ گرانی میری
ہمہ تن گوش بنے سنتے ہیں
غیر کہتا ہے کہانی میری
یاد آؤں گا جفا کاروں کو
بے نشانی ہے نشانی میری
التجا ایک مقدر دو تھے
غیر کی مانی نہ مانی میری
حشر میں کچھ نہ ہوا مجھ سے سوال
واہ ری ہیچ مدانی میری
اب اٹھیں گے ترے در سے مر کر
کبھی اٹھتی نہیں ٹھانی میری
میرے اشعار فغان دل ہیں
قدر کرتا ہے فغانیؔ میری
خسرو ملک سخن دانی ہوں
داد ہے باج ستانی میری
دل میں پوشیدہ رہے گی کب تک
آتش شوق نہانی میری
تار گیسو سے نظر جا الجھی
دیکھنا ریشہ داوانی میری
دل کی حالت سے خبر دیتی ہے
اثرؔ آشفتہ بیانی میری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |