روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر

روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر
by شوق قدوائی

روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر
اس نے چڑھائیں تیوریاں میرا قرار دیکھ کر

قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں شوق جوش سے
ہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر

دیکھ کے ایک بار انہیں دل سے تو ہاتھ دھو چکے
دیکھیے کیا گزرتی ہے دوسری بار دیکھ کر

آتے ہیں وہ تو پہلے ہی رنج سے صاف ہو رہوں
آ کے کہیں پلٹ نہ جائیں دل میں غبار دیکھ کر

وصل سے گزرے اے خدا ہاں یہ شگون چاہیئے
صبح کو ہم اٹھا کریں روئے نگار دیکھ کر

کعبہ کو جا نہ شوقؔ ابھی نیت زندگی بخیر
ہم بھی چلیں گے تیرے ساتھ اب کی بہار دیکھ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse