روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا

روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا
by اکبر الہ آبادی

روشن دل عارف سے فزوں ہے بدن ان کا
رنگیں ہے طبیعت کی طرح پیرہن ان کا

محروم ہی رہ جاتی ہے آغوش تمنا
شرم آ کے چرا لیتی ہے سارا بدن ان کا

جن لوگوں نے دل میں ترے گھر اپنا کیا ہے
باہر ہے دو عالم سے مری جاں وطن ان کا

ہر بات میں وہ چال کیا کرتے ہیں مجھ سے
الفت نہ نبھے گی جو یہی ہے چلن ان کا

عارض سے غرض ہم کو عنادل کو ہے گل سے
ہے کوچۂ معشوق ہمارا چمن ان کا

ہے صاف نگاہوں سے عیاں جوش جوانی
آنکھوں سے سنبھلتا نہیں مستانہ پن ان کا

یہ شرم کے معنی ہیں حیا کہتے ہیں اس کو
آغوش تصور میں نہ آیا بدن ان کا

غیروں ہی پہ چلتا ہے جو اب ناز کا خنجر
کیوں بیچ میں لایا تھا مجھے بانکپن ان کا

غیروں نے کبھی پاک نظر سے نہیں دیکھا
وہ اس کو نہ سمجھیں تو یہ ہے حسن ظن ان کا

اس زلف و رخ و لب پہ انہیں کیوں نہ ہو نخوت
تاتار ہے ان کا حلب ان کا یمن ان کا

اللہ رے فریب نظر چشم فسوں ساز
بندہ ہے ہر اک شیخ ہر اک برہمن ان کا

آیا جو نظر حسن خداداد کا جلوہ
بت بن گیا منہ دیکھ کے ہر برہمن ان کا

مرقد میں اتارا ہمیں تیوری کو چڑھا کر
ہم مر بھی گئے پر نہ چھٹا بانکپن ان کا

گزری ہوئی باتیں نہ مجھے یاد دلاؤ
اب ذکر ہی جانے دو تم اے جان من ان کا

دلچسپ ہی آفت ہے قیامت ہے غضب ہے
بات ان کی ادا ان کی قد ان کا چلن ان کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse