رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی

رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی (1900)
by حبیب موسوی
324746رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی1900حبیب موسوی

رونا ان کا کام ہے ہر دم جل جل کر مر جانا بھی
جان جہاں عشاق تمہارے شمع بھی ہیں پروانہ بھی

ساری عمر میں جو گزری تھی ہم پر وہ روداد لکھی
پر ہوئی یوں مشہور کہ جیسا ہو نہ کوئی افسانہ بھی

عشق سبھی کرتے ہیں مگر جو حالت مجھ پر طاری ہے
منہ سے کہوں گر ہاتھ ملے گا اپنا بھی بیگانہ بھی

پوچھتے کیا ہو میرا ٹھکانا ایک جگہ گر ہو تو کہوں
راہ گزر ہے یار کا در ہے مسجد بھی مے خانہ بھی

راہ طلب میں چلتے پھرتے لاکھوں آتے جاتے ہیں
خلق میں ہے عشاق کی منزل کعبہ بھی بت خانہ بھی

مجھ پر وہ بے طور خفا ہیں غیروں کے بہکانے سے
ملنا کیسا بات کہاں کی بند ہے آنا جانا بھی

ایک ہمیں کیا پیچ میں ہیں اس زلف دوتا کی الفت سے
مار سیہ ہم رنگ ہے اپنا سنبل تر بھی شانہ بھی

کر دی صحبت درہم و برہم کس کی چشم کے افسوں نے
بہکا ساقی ڈھلکی بوتل اور چھلکا پیمانہ بھی

واعظ کے منہ پر نہ کہو کچھ شرع کی حرمت لازم ہے
رندی میں مشروط نہیں ہیں باتیں آزادانہ بھی

خنجر ابرو تیغ نگہ تقریر مسلسل چشم سیاہ
تیز بھی ہے خوں ریز بھی دل آویز بھی ہے مستانہ بھی

کوچہ میں اس کے جمع ہیں عاشق بھیڑ لگی ہے کوسوں تک
شور بھی ہے ہنگامہ بھی ہے شانے سے چھلتا شانہ بھی

خلوت دل میں چین سے بیٹھو کس سے تکلف کرتے ہو
گھر ہے تمہارا تم ہو یہاں مہمان بھی صاحب خانہ بھی

نام حبیبؔ مضطر کا معلوم نہیں سب کہتے ہیں
درد رسیدہ آفت دیدہ وحشی بھی دیوانہ بھی


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.