رہتا ہے زلف یار مرے من سے من لگا
رہتا ہے زلف یار مرے من سے من لگا
اے ناگ ترے ہاتھ یہ کیا خوب من لگا
دیکھا ہے جن نے روئے دل افروز کو ترے
بے شک نظر میں باغ ارم اس کی بن لگا
سرسبز نت رکھیں گے انہیں میرے اشک و آہ
اے نو بہار حسن جو چاہے چمن لگا
سینہ سپر کر آؤں گا کوچے میں میں ترے
گرچہ رقیب بیٹھے ہیں واں تن سے تن لگا
کیا فائدہ ہے قصۂ رضوان سے تجھے
کوئی شمع رو پری ستے تو بھی لگن لگا
آگاہؔ خار خار جدائی سے ہے حزیں
یک بار تو گلے سے اسے گل بدن لگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |