رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا
رہے خیال تنک ہم بھی رو سیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا
نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا
گلی میں اس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا
لباس فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا
تمام زلف کے کوچے ہیں مار پیچ اس کی
تجھی کو آوے دلا چلنا ایسی راہوں کا
اسی جو خوبی سے لائے تجھے قیامت میں
تو حرف کن نے کیا گوش دادخواہوں کا
تمام عمر رہیں خاک زیر پا اس کی
جو زور کچھ چلے ہم عجز دست گاہوں کا
کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمان حال
کہ پوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا
حساب کاہے کا روز شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا
تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی ادھر
فریب خوردہ ہے تو میرؔ کن نگاہوں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |