رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر
رہے دنیا میں محکوم دل بے مدعا ہو کر
خوشا انجام اٹھے بھی تو محروم دعا ہو کر
وطن کو چھوڑ کر جس سر زمیں کو میں نے عزت دی
وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہو کر
بتاؤ ایسے بندے پر ہنسی آئے کہ غیظ آئے
دعا مانگے مصیبت میں جو قصداً مبتلا ہو کر
کھلا آخر فریب مے چلا جب درد کا ساغر
بندھا زور خمار اندیشۂ روز جزا ہو کر
نگاہ یاسؔ ہی گویا دوبارہ زندگی پائی
جو چونکا خواب غفلت کے مزے سے آشنا ہو کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |