رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
تیرا تو اے ستمگر ارمان رہ نہ جائے
جو دل کی حسرتیں ہیں سب دل میں ہوں تو بہتر
اس گھر سے کوئی باہر مہمان رہ نہ جائے
اقرار وصل تو ہے ایسا نہ ہو نہ آئیں
مشکل ہماری ہو کر آسان رہ نہ جائے
اے سوز غم جلا دے اے درد خوں رلا دے
کچھ ان کی دل لگی کا سامان رہ نہ جائے
سب منزلیں ہوئیں طے محشر ہے اور اے دل
یہ ایک رہ گیا ہے میدان رہ نہ جائے
وہ جام کفر پرور بھر دے کہ مست کر دے
مستوں کے دل میں ساقی ایمان رہ نہ جائے
آ کر پلٹ نہ خالی اے مرگ جان لے جا
فانیؔ کے سر پہ تیرا احسان رہ نہ جائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |