رہ شوق سے اب ہٹا چاہتا ہوں

رہ شوق سے اب ہٹا چاہتا ہوں
by مجاز لکھنوی

رہ شوق سے اب ہٹا چاہتا ہوں
کشش حسن کی دیکھنا چاہتا ہوں

کوئی دل سا درد آشنا چاہتا ہوں
رہ عشق میں رہنما چاہتا ہوں

تجھی سے تجھے چھیننا چاہتا ہوں
یہ کیا چاہتا ہوں یہ کیا چاہتا ہوں

خطاؤں پہ جو مجھ کو مائل کرے پھر
سزا اور ایسی سزا چاہتا ہوں

وہ مخمور نظریں وہ مدہوش آنکھیں
خراب محبت ہوا چاہتا ہوں

وہ آنکھیں جھکیں وہ کوئی مسکرایا
پیام محبت سنا چاہتا ہوں

تجھے ڈھونڈھتا ہوں تری جستجو ہے
مزا ہے کہ خود گم ہوا چاہتا ہوں

یہ موجوں کی بے تابیاں کون دیکھے
میں ساحل سے اب لوٹنا چاہتا ہوں

کہاں کا کرم اور کیسی عنایت
مجازؔ اب جفا ہی جفا چاہتا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse