رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر

رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
by مضطر خیرآبادی

رہ کے پردے میں رخ پر نور کی باتیں نہ کر
دور سے باتیں سنا کر دور کی باتیں نہ کر

بیٹھ کر دنیا میں زاہد حور کی باتیں نہ کر
رہ کے اتنی دور اتنی دور کی باتیں نہ کر

لن ترانی جلوۂ جاناں تری اچھی نہیں
میں کوئی موسیٰ نہیں ہوں طور کی باتیں نہ کر

میری بے ہوشی بڑھی جاتی ہے اس تدبیر سے
چارہ گر تو دیدۂ مخمور کی باتیں نہ کر

اپنا غم مجھ کو پرائے غم سے یاد آنے لگا
ہم نشیں مجھ سے دل رنجور کی باتیں نہ کر

پاس آنے کو جو کہتا ہوں تو مضطرؔ ناز سے
کہتے ہیں چل دور اتنی دور کی باتیں نہ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse