زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے
زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے
تجلی گاہ ایمن ہے دل دیوانہ برسوں سے
کچھ ایسا ہے فریب نرگس مستانہ برسوں سے
کہ سب بھولے ہوئے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
وہ چشم فتنہ گر ہے ساقئ مے خانہ برسوں سے
کہ باہم لڑ رہے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
نہ اب منصور باقی ہے نہ وہ دار و رسن لیکن
فضا میں گونجتا ہے نعرۂ مستانہ برسوں سے
چمن کے نونہال اس خاک میں پھولیں پھلیں کیونکر
یہاں چھایا ہوا ہے سبزۂ بیگانہ برسوں سے
یہ آنکھیں مدتوں سے خوگر برق تجلی ہیں
نشیمن بجلیوں کا ہے مرا کاشانہ برسوں سے
ترے قرباں ادھر بھی ایک جھونکا ابر رحمت کا
جبینوں میں گرہ ہے سجدۂ شکرانہ برسوں سے
سہیلؔ اب کس کو سجدہ کیجئے حیرت کا عالم ہے
جبیں خود بن گئی سنگ در جانانہ برسوں سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |