زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
یہ بیکسی بھی عجب بیکسی ہے دنیا میں
کوئی ستائے ہمیں ہم ستا نہیں سکتے
کشش وفا کی انہیں کھینچ لائی آخر کار
یہ تھا رقیب کو دعویٰ وہ آ نہیں سکتے
جو تو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں
مگر یقیں ترے وعدوں پہ لا نہیں سکتے
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |