زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے
وہ یہاں تک جو آ نہیں سکتے
کیا مجھے بھی بلا نہیں سکتے
وعدہ بھی ہے تو ہے قیامت کا
جس کو ہم آزما نہیں سکتے
آپ بھی بحر اشک ہیں گویا
آگ دل کی بجھا نہیں سکتے
ان سے امید وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے
ان کو گھونگھٹ اٹھانے میں کیا عذر
ہوش میں ہم جو آ نہیں سکتے
مانگتے موت کی دعا لیکن
ہاتھ دل سے اٹھا نہیں سکتے
ان کو دعوائے یوسفی آسیؔ
خواب میں بھی جو آ نہیں سکتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |