زمانے میں وہ مہ لقا ایک ہے

زمانے میں وہ مہ لقا ایک ہے
by رند لکھنوی

زمانے میں وہ مہ لقا ایک ہے
ہزاروں میں وہ دل ربا ایک ہے

خداوند ارض و سما ایک ہے
قسم ہے خدا کی خدا ایک ہے

برابر ہے اپنا وجود و عدم
ہماری بقا اور فنا ایک ہے

عدم ابتدا ہے عدم انتہا
مری ابتدا انتہا ایک ہے

نہ ہوں گے یہ حادث رہے گا قدیم
غرض سب ہیں فانی بقا ایک ہے

ذرا غور سے مرأت دل کو دیکھ
یہ آئینۂ حق نما ایک ہے

جنہیں کفر و الحاد کہتا ہے شیخ
فقط پھیر ہے راستا ایک ہے

جہاں میں ہیں غافل بہت سے طریق
مگر راہ صدق و صفا ایک ہے

مآل سخن ذکر ہے یار کا
کہوں سو طرح مدعا ایک ہے

محل فقر کا ہے عجائب مقام
یہاں مسند و بوریا ایک ہے

کہاں اس کے آگے کسی کا فروغ
وہ خورشید رو مہ لقا ایک ہے

فضیلت ملی ایک کو ایک پر
غرض ایک سے یاں سوا ایک ہے

بچے گا نہ کاوش سے مژگاں کے دل
کہ نشتر بہت آبلہ ایک ہے

جفاکار دم باز کاذب محیل
میں واقف ہوں وہ بے وفا ایک ہے

ہے انبوہ عشاق عیسیٰ کے گھر
مریض اتنے دار الشفا ایک ہے

نہیں بچتا دونوں کا مارا ہوا
تری زلف اور اژدہا ایک ہے

نہ آنا تو اس زلف کے پیچ میں
ارے دل وہ کالی بلا ایک ہے

ہزاروں شہید محبت ہیں دفن
گلی اس کی اور کربلا ایک ہے

ہر اک درد کا ہے مداوا وہ لب
مرض سیکڑوں ہیں دوا ایک ہے

دوئی کو نہ دے دل میں غافل جگہ
زباں ایک ہے اور خدا ایک ہے

کہو گے جو کچھ تو سنو گے بھی رندؔ
ہنسی میں تو شاہ و گدا ایک ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse