زندگی بھر دہر کی نیرنگیاں دیکھا کئے
زندگی بھر دہر کی نیرنگیاں دیکھا کئے
گردش ایام و دور آسماں دیکھا کئے
ہم اسیران قفس کی ہائے رے مجبوریاں
سامنے آنکھوں کے جلتا آشیاں دیکھا کئے
آشیاں باندھا کئے ہر فصل گل میں ہم صفیر
اور ہم اپنے قفس کی تیلیاں دیکھا کئے
آشیاں باندھا مگر آسودگی کا ذکر کیا
کس طرح گرتی ہیں اس پر بجلیاں دیکھا کئے
جان بھی آخر مرض کے ساتھ رخصت ہو گئی
ہم تری رہ اے مسیحائے زماں دیکھا کئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |