زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
بہر واماندہ اقامت ہی سہی
دوستی وجہ عداوت ہی سہی
دشمنی بہر رفاقت ہی سہی
طول دیتے ہو عداوت کو کیوں
مختصر قصۂ الفت ہی سہی
رکھ کسی وضع سے احسان کی خو
مجھ کو آزار سے راحت ہی سہی
آپ کا بھی نہیں چھٹتا دامن
میرے در پہ مری شامت ہی سہی
عاقبت حشر کو آنا اک دن
روٹھ جانا تری عادت ہی سہی
کچھ بھی اے بخت میسر ہے تجھے
یا تجسس سے فراغت ہی سہی
کوچۂ غیر میں چل کر رہیے
گر نہیں عیش تو حسرت ہی سہی
یہی تقریب ستم ہو اے کاش
ہر طرح غیر سے نفرت ہی سہی
اب تو اٹھ آئے لحد سے بے تاب
نہ سہی چال قیامت ہی سہی
یادگاری کی کوئی بات تو ہو
موت اپنی تری رخصت ہی سہی
عدل و انصاف قیامت معلوم
آہ و فریاد کی فرصت ہی سہی
اے قلقؔ شکر ستم بے جا کیوں
آہ و فریاد کی فرصت ہی سہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |