زندگی کا کس لیے ماتم رہے
زندگی کا کس لیے ماتم رہے
ملک بستا ہے مٹے یا ہم رہے
دل رہے پیری میں بھی تیرا جواں
آخری دم تک یہی دم خم رہے
چاہیئے انسان کا دل ہو غنی
پاس مال و زر بہت یا کم رہے
کیا اسی جنت کی یہ تحریص ہے
جس میں کچھ دن حضرت آدم رہے
وصل سے مطلب نہ رکھ تو عشق کا
دم بھرے جا دم میں جب تک دم رہے
لاگ اک دن بن کے رہتی ہے لگاؤ
ہاں لگاوٹ کچھ نہ کچھ باہم رہے
عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے
شرق سے جب نور چمکا تو کہاں
برگ گل پر قطرۂ شبنم رہے
حسن کی دنیا کا ہے دائم شباب
حشر تک اس کا یہی عالم رہے
ہے سرور حسن کیفیؔ لا یزال
در خور ظرف اس میں بیش و کم رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |