زور یارو آج ہم نے فتح کی جنگ فلک
زور یارو آج ہم نے فتح کی جنگ فلک
یک طمانچے میں کبودی کر دیا رنگ فلک
گرمئ دوکاں پر اپنی شیشہ گر سرکش نہ ہو
ڈھونڈھتا پھرتا ہے تیرے سر کے تئیں سنگ فلک
کج روی سے اس کی گر عاقل ہے تو غافل نہ رہ
ان دنوں اور ہی نظر آتا ہے کچھ ڈھنگ فلک
تو جو تل بیٹھے تو پلے چاہئے ہوں مہر و ماہ
ایسی میزاں کے تئیں لازم ہے پاسنگ فلک
شوق ہے گر سیر بالا کا تو حاتمؔ ہو سوار
کہکشاں سے کھینچ کر لایا ہوں اب تنگ فلک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |