زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں

زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں
ہم کو تو بس ڈبو گئیں نیل کے کٹرے والیاں

تیغ جو رکھی سان پر سدھ جو سنبھالی اس نے ٹک
وضعیں نئی تراشیاں طرزیں نئی نکالیاں

ہم پہ تو برسے صبح تک خنجر و تیغ و تیر ہی
ابر بلا سے کم نہیں ہجر کی راتیں کالیاں

شعلے کی جوں مدد کرے دود نخست خار و خس
مسی سے اور دھواں ہوئیں ہونٹوں کی اس کی لالیاں

موکمران باغ حسن لچکیں جو مثل شاخ بید
دل کو نہ کیوں ہلاویں پھر ان کی یہ نو نہالیاں

اک شرر آہ کا مری باعث شور و شر ہوا
جگنو کو دیکھ جس طرح لڑکے بجاویں تالیاں

صاحب نعمت اس طرح رہتے ہیں سب سے سرخ رو
سوئے زمیں جھکی رہیں میوے کی جیسے ڈالیاں

کس سے پڑھاوے کوئی خط انشا ہی جس کا ہو غلط
یعنی کہ اس نے بے نقط بھیجی ہیں لکھ کے گالیاں

کنج قفس میں باغ سے آئے تھے جو نئے اسیر
صوتیں انہوں کی ساری رات میرے جگر میں سالیاں

مصحفیؔ اس کی بزم میں بھوکے ہیں ناز کے جو لوگ
گالیوں کی جگہ انہوں ملتی ہیں کیا سہالیاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse