زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
غم نے دل کو دل بنایا ورنہ کیا تھا کچھ نہ تھا
وہ تو میرے سامنے تھے دیکھنے کی دیر تھی
میں نے آنکھیں بند کر لیں ورنہ پردا کچھ نہ تھا
یا الم کوشی رہی یا خود فراموشی رہی
دل کسی دن دل نہ تھا یا درد تھا یا کچھ نہ تھا
کچھ سمجھ کر خود ہی ہم نے جان دے دی دل کے ساتھ
ان کی نظروں کا ابھی ایسا تقاضا کچھ نہ تھا
آپ کا دیوانہ تھا یہ ادعا باطل سہی
فانیؔ دیوانہ دیوانہ بھی تھا یا کچھ نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |