سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا

سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا
by رند لکھنوی
316629سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوارند لکھنوی

سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا
ہنس کے بولے شاہ صاحب کس طرف آنا ہوا

ٹوٹے بت مسجد بنی مسمار بت خانہ ہوا
جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا

ہر جگہ موجود سمجھا اس کو سجدہ کر لیا
خواہ مسجد خواہ گرجا خواہ بت خانہ ہوا

باز رکھتی ہے ہمیں خدمت سے ازخود رفتگی
آن نکلیں گے کبھی گر آپ میں آنا ہوا

بیشتر بلبل سے تھا سر میں مرے شور جنوں
فصل گل آنے نہ پائی تھی کہ دیوانہ ہوا

گرمی فرقت میں جب اشکوں سے مژگاں تر ہوئیں
مردمان چشم کے رہنے کو خس خانہ ہوا

کارخانے جتنے ہیں دنیا کے سب ہیں بے ثبات
آنکھ سے جو آج دیکھا کل وہ افسانہ ہوا

ہنستے ہنستے دل لگی کے واسطے ناپا جو آج
سرو کا قد اس سہی قامت کے تا شانہ ہوا

یوسف مصر محبت کیسا ارزاں بک گیا
نقد دل قیمت ہوئی اک بوسہ بیعانہ ہوا

جل کے اس نے جان دی یہ نالے کر کے رہ گئی
عشق بلبل پر بھی فائق عشق پروانہ ہوا

عشق دنداں کی خطا پر قتل جو مجھ کو کیا
اس لیے شمشیر قاتل میں بھی دندانہ ہوا

میں نے جانا کاسۂ سر ہے کسی مے خوار کا
واژگونہ دست ساقی میں جو پیمانہ ہوا

مژدہ باد اے بادہ خوارو دور واعظ ہو چکا
مدرسے کھولے گئے تعمیر مے خانہ ہوا

رندؔ ہوں روز ازل سے ہوں میں وارفتہ مزاج
اس لیے طور سخن بھی اپنا رندانہ ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.