سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا
سائلانہ ان کے در پر جب مرا جانا ہوا
ہنس کے بولے شاہ صاحب کس طرف آنا ہوا
ٹوٹے بت مسجد بنی مسمار بت خانہ ہوا
جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا
ہر جگہ موجود سمجھا اس کو سجدہ کر لیا
خواہ مسجد خواہ گرجا خواہ بت خانہ ہوا
باز رکھتی ہے ہمیں خدمت سے ازخود رفتگی
آن نکلیں گے کبھی گر آپ میں آنا ہوا
بیشتر بلبل سے تھا سر میں مرے شور جنوں
فصل گل آنے نہ پائی تھی کہ دیوانہ ہوا
گرمی فرقت میں جب اشکوں سے مژگاں تر ہوئیں
مردمان چشم کے رہنے کو خس خانہ ہوا
کارخانے جتنے ہیں دنیا کے سب ہیں بے ثبات
آنکھ سے جو آج دیکھا کل وہ افسانہ ہوا
ہنستے ہنستے دل لگی کے واسطے ناپا جو آج
سرو کا قد اس سہی قامت کے تا شانہ ہوا
یوسف مصر محبت کیسا ارزاں بک گیا
نقد دل قیمت ہوئی اک بوسہ بیعانہ ہوا
جل کے اس نے جان دی یہ نالے کر کے رہ گئی
عشق بلبل پر بھی فائق عشق پروانہ ہوا
عشق دنداں کی خطا پر قتل جو مجھ کو کیا
اس لیے شمشیر قاتل میں بھی دندانہ ہوا
میں نے جانا کاسۂ سر ہے کسی مے خوار کا
واژگونہ دست ساقی میں جو پیمانہ ہوا
مژدہ باد اے بادہ خوارو دور واعظ ہو چکا
مدرسے کھولے گئے تعمیر مے خانہ ہوا
رندؔ ہوں روز ازل سے ہوں میں وارفتہ مزاج
اس لیے طور سخن بھی اپنا رندانہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |