ساتوں فلک کیے تہ و بالا نکل گیا

ساتوں فلک کیے تہ و بالا نکل گیا
by رند لکھنوی
316663ساتوں فلک کیے تہ و بالا نکل گیارند لکھنوی

ساتوں فلک کیے تہ و بالا نکل گیا
آخر شب فراق میں نالہ نکل گیا

وحشت نے مجھ پہ عرصۂ ہستی کیا جو تنگ
گھبرا کے سوئے عالم بالا نکل گیا

سر دے دے باد گیسوئے جاناں کی چاہ میں
پیٹا کرو لکیر کو کالا نکل گیا

یعقوب وار روتا میں اس بت کے ہجر میں
یوسف مرا خدائے تعالیٰ نکل گیا

فرقت میں اس کی شدت گریہ کہاں تلک
برسا برس کے ابر کا جھالا نکل گیا

روکا کیے ملائکہ ہفت آسمان کے
ساتوں فلک کو توڑ کے نالہ نکل گیا

سوئے نہ ساکنان محلہ سحر تلک
بے ساختہ جو رات کو نالہ نکل گیا

کیوں کر نہ روئیے دل گم گشتہ کے لیے
ناز و نعم سے تھا جسے پالا نکل گیا

پیر مغاں فقیر کو سمجھے شراب خور
جس میکدے میں لے کے پیالا نکل گیا

جاتا نہ گھر سے آپ کے ضد سے رقیب کی
لیکن بہ پاس خاطر والا نکل گیا

جھٹکا جو الجھی زلف کو جھنجھلا کے یار نے
ہالے سے مچھلی کان سے بالا نکل گیا

کس رشک گل کی دیکھی قبا اس نے تنگ چست
باہر جو اپنے جامے سے لالہ نکل گیا

دانہ تھا کیا حرام کا رزق حلال میں
منہ سے جو اے کریم نوالہ نکل گیا

بوٹا کہو نہ قامت دلبر کو شاعرو
اب سرو سے بھی وہ قد بالا نکل گیا

روندا کیا میں خار بیاباں کو اے جنون
ہر اک بچا کے پاؤں کا چھالا نکل گیا

کمبل میں اپنے گرم رہا میں فقیر مست
کیا گیا نہ دور دار دونا نکل گیا

پھر چل دلا نہ کوچۂ گیسو کا قصد کر
ہے آج راہ کاٹ کے کالا نکل گیا

اکتا گیا بہ تنگ ہوا کیا کرے غریب
آخر تمہارا چاہنے والا نکل گیا

مہمان ہے فقیر ہے سن لیں گے آپ رندؔ
مرشد کا اپنے کر کے پیالا نکل گیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.