ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا
ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا
اللہ اللہ ترا بزم سے اٹھ کر جانا
رہبری کر کے مری خضر بھی چکر میں پڑے
اب انہیں جلوہ گہہ یار میں اکثر جانا
داغ کم حوصلگی دل کو گوارا نہ ہوا
ورنہ کچھ ہجر میں دشوار نہ تھا مر جانا
سادگی سے یہ گماں ہے کہ بس اب رحم کیا
مطمئن ہوں کہ مجھے آپ نے مضطر جانا
نشہ میں بھی ترے بیخودؔ کی تعلی نہ گئی
بادۂ ہوش ربا کو مئے کوثر جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |