ساتھ میں اغیار کے میں بھی صف مقتل میں ہوں
ساتھ میں اغیار کے میں بھی صف مقتل میں ہوں
صورت ترکیب موزوں مصرع مہمل میں ہوں
مجھ سا رنگیں طبع ہے تیرہ درونوں میں خراب
میں شراب ارغوانی ہوں مگر بوتل میں ہوں
گندہاے نا تراشیدہ ہیں ہم صحبت مری
ان دنوں تو میں بھی خوشبو کی طرح صندل میں ہوں
آدمی بے حس و مس میں صورت مردم گیاہ
شہر میں ہوں میں الٰہی یا کسی جنگل میں ہوں
پردہ دار گریۂ بے اختیاری فقر ہے
برق ہے ابر سیہ میں اور میں کمل میں ہوں
حاصل نیکی ہوں نیکوں کو بدوں کو بد ہوں مہرؔ
میرا ہی پرتو عنت میں ہے میں ہی حنظل میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |