سارا عالم گوش بر آواز ہے
سارا عالم گوش بر آواز ہے
آج کن ہاتھوں میں دل کا ساز ہے
تو جہاں ہے زمزمہ پرداز ہے
دل جہاں ہے گوش بر آواز ہے
ہاں ذرا جرأت دکھا اے جذب دل
حسن کو پردے پہ اپنے ناز ہے
ہم نشیں دل کی حقیقت کیا کہوں
سوز میں ڈوبا ہوا اک ساز ہے
آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری مے خواری ابھی تک راز ہے
ہنس دیے وہ میرے رونے پر مگر
ان کے ہنس دینے میں بھی اک راز ہے
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
حسن کو ناحق پشیماں کر دیا
اے جنوں یہ بھی کوئی انداز ہے
ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجازؔ
وہ تو آواز شکست ساز ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |