ساز ہستی کی صدا عرش بریں تک پہنچے
ساز ہستی کی صدا عرش بریں تک پہنچے
اے خوشا جنس امانت کہ امیں تک پہنچے
ہائے وہ شان تغافل کہ ہے مجھ سے مخصوص
ہائے وہ عرض تمنا کہ تمہیں تک پہنچے
منزلیں اور بھی تھیں منزل جاناں کے سوا
ہم بہ محرومیٔ تقدیر وہیں تک پہنچے
ہاتھ میں مشعل خورشید جلو میں تارے
کس تکلف سے ہم اس ماہ جبیں تک پہنچے
اے خدا وہم غلط کار کو دے اذن جنوں
کہ خرد مرحلۂ ذوق یقیں تک پہنچے
اپنی افتاد کی روداد یہ ہے اہل نظر
سوئے افلاک رواں تھے کہ زمیں تک پہنچے
ہم خرابات نشینوں کا وہ عالی ہے مقام
کہ جو کم ظرف رہے تخت و نگیں تک پہنچے
پہلے فردوس کی محفل سے نکالے گئے ہم
پھر تری محفل فردوس قریں تک پہنچے
دولت دیں پہ بہت ناز ہے مجھ کو عابدؔ
کاش یہ بات کسی دشمن دیں تک پہنچے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |