ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب
ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب
مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب
مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے
ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جا شراب
مشرب میں تو درست خراباتیوں کے ہے
مذہب میں زاہدوں کے نہیں گر روا شراب
ساقی کے تئیں بلاؤ اٹھا دو طبیب کو
مستوں کے ہے مرض کی جہاں میں دوا شراب
بے روئے یار او مطرب و ابرو بہار و باغ
حاتمؔ کے تئیں کبھی نہ پلائے خدا شراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |