ساقی ہے نہ مے ہے نہ دف وچنگ ہے ہولی
ساقی ہے نہ مے ہے نہ دف وچنگ ہے ہولی
کیا حال ہے امسال یہ کیا رنگ ہے ہولی
آئی ہے جو فرقت میں مرا خون کرے گی
یہ بھی ترے آنے کا کوئی ڈھنگ ہے ہولی
ہم خاک اڑاتے ہیں دھولینڈی ہے یہاں پر
ہم تک نہیں آتی کبھی کیا لنگ ہے ہولی
سو بار جلاتا ہوں میں اک آہ سے دم میں
آ کر مرے ویرانے میں کیا تنگ ہے ہولی
نکلا مہ نخشب کہ گرا چاہ میں یوسف
یا حوض کے اندر مہ گل رنگ ہے ہولی
پچکاری اگر خامہ ہے تو رنگ سیاہی
رنگینی مضموں سے مرے دنگ ہے ہولی
ہر بت عوض قمقمہ دل مانگ رہا ہے
اس سال کی واللہ کہ بے رنگ ہے ہولی
اے مہرؔ ترے گرد ہیں مہ رو کئے تصویر
فانوس خیالی ہے کہ ارژنگ ہے ہولی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |