ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
نہیں خوش تر سوائے یار شراب
قتل پر کس کے آج ہوتی ہے
توسن حسن پر سوار شراب
رکھ کرم پر ترے نظر مجرم
نوش کرتے ہیں بے شمار شراب
ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب
یا علی حشر میں دو چنداؔ کو
آب کوثر کی خوش گوار شراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |