ساقی (مجاز لکھنوی)
مری مستی میں بھی اب ہوش ہی کا طور ہے ساقی
ترے ساغر میں یہ صہبا نہیں کچھ اور ہے ساقی
بھڑکتی جا رہی ہے دم بدم اک آگ سی دل میں
یہ کیسے جام ہیں ساقی یہ کیسا دور ہے ساقی
وہ شے دے جس سے نیند آ جائے عقل فتنہ پرور کو
کہ دل آزردۂ تمییز لطف و جور ہے ساقی
کہیں اک رند اور واماندۂ افکار تنہائی
کہیں محفل کی محفل طور سے بے طور ہے ساقی
جوانی اور یوں گھر جائے طوفان حوادث میں
خدا رکھے ابھی تو بے خودی کا دور ہے ساقی
چھلکتی ہے جو تیرے جام سے اس مے کا کیا کہنا
ترے شاداب ہونٹوں کی مگر کچھ اور ہے ساقی
مجھے پینے دے پینے دے کہ تیرے جام لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے کچھ اور ہے کچھ اور ہے ساقی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |