سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ کرتا ہوں
بحر ہستی میں ہوں مثال حباب
مٹ ہی جاتا ہوں جب ابھرتا ہوں
اتنی آزادی بھی غنیمت ہے
سانس لیتا ہوں بات کرتا ہوں
شیخ صاحب خدا سے ڈرتے ہوں
میں تو انگریزوں ہی سے ڈرتا ہوں
آپ کیا پوچھتے ہیں میرا مزاج
شکر اللہ کا ہے مرتا ہوں
یہ بڑا عیب مجھ میں ہے اکبرؔ
دل میں جو آئے کہہ گزرتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |