سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے

سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے
by امداد علی بحر

سب حسینوں میں وہ پیارا خوب ہے
ایک چہرہ جسم سارا خوب ہے

ایسے مکھڑے کی بلائیں لیجیے
بھولا بھولا پیارا پیارا خوب ہے

میری محفل میں کبھی آتے نہیں
غیر کے گھر میں گزارا خوب ہے

دونوں آنکھیں قاتل عشاق ہیں
لشکر مژگاں صف آرا خوب ہے

چرخ پر تم کو چڑھا کر دیکھیے
کون سا تاروں میں تارا خوب ہے

تم جو آئے جسم میں جان آ گئی
جان میں پیرا تمہارا خوب ہے

پاس اپنے ہو اگر تصویر یار
زندگانی کا سہارا خوب ہے

کیوں ملیں ہم آپ سے چوری چھپے
بات جو ہے آشکارا خوب ہے

تو کہا میں نے تو آزردہ ہوئے
غیر کی گالی گوارا خوب ہے

چاند سے بڑھتی ہے آنکھوں کی ضیا
خوب روؤں کا نظارا خوب ہے

دوستوں سے انحراف اچھا نہیں
دشمنوں سے بھی مدارا خوب ہے

مانگ بالوں میں ہی کیا ہے آب دار
ڈوب مرنے کو یہ دھارا خوب ہے

آبرو جاتی رہے گی آپ کی
بحرؔ اب اس سے کنارا خوب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse