سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
غافل تو ذرا دیکھ وہ ہر آن ہے موجود
ہر تار کا دامن کے مرے کر کے تبرک
سربستہ ہر اک خار بیابان ہے موجود
عریانی تن ہے یہ بہ از خلعت شاہی
ہم کو یہ ترے عشق میں سامان ہے موجود
کس طرح لگاوے کوئی داماں کو ترے ہاتھ
ہونے کو تو اب دست و گریبان ہے موجود
لیتا ہی رہا رات ترے رخ کی بلائیں
تو پوچھ لے یہ زلف پریشان ہے موجود
تم چشم حقیقت سے اگر آپ کو دیکھو
آئینۂ حق میں دل انسان ہے موجود
کہتا ہے ظفرؔ ہیں یہ سخن آگے سبھوں کے
جو کوئی یہاں صاحب عرفان ہے موجود
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |