ستا کر ستم کش کو کیا پائیے گا
ستا کر ستم کش کو کیا پائیے گا
جو کی کچھ شکایت تو جھنجھلائیے گا
وہ برق تجلی کی جو جلوہ گاہ
وہیں حضرت دل نہ رہ جائیے گا
ادب کی جگہ مرنے والو ہے قبر
سمجھ کر یہاں پاؤں پھیلائیے گا
غریب اب تو قدموں میں ہی آ پڑا
دل ناتواں کو نہ ٹھکرائیے گا
خبر بھی ہے کچھ بار عصیاں کی شوقؔ
ہوئی واں جو پرسش تو شرمایئے گا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |