ستم ایجاد رہوگے ستم ایجاد رہے
ستم ایجاد رہوگے ستم ایجاد رہے
اس میں اب شاد رہے یا کوئی ناشاد رہے
آپ نے عہد کیا ہے مری غم خواری کا
اب اجازت ہو تو یہ عہد مجھے یاد رہے
گر مری توبہ کو مقبول شکست توبہ
میری تدبیر میں تقدیر کی افتاد رہے
قید ہستی سے بہت تم نے کیے ہیں آزاد
کوئی اس قید محبت کی بھی میعاد رہے
وہ خدائی ہو تو ہو شان تجلی تو نہیں
جس تجلی میں نگاہوں کو خدا یاد رہے
ظلم ہے تجھ سے بہ تقریب تکلف منسوب
ورنہ تقدیر وفا یہ ہے کہ برباد رہے
دل آباد کا فانیؔ کوئی مفہوم نہیں
ہاں مگر جس میں کوئی حسرت برباد رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |